1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ھیپاتیا، قدیم اسکندریہ کی فیمنسٹ

15 مارچ 2024

ہزاروں سال پہلے ھیپاتیا کو ایک دن اسکندریہ کی گلیوں میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تنقیدی سوچ جیسے ’گناہ‘ کی پاداش می‍ں ھیپاتیا کو سربازار خون میں نہلا دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4dFo7
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں ہمیشہ ان بہادر عورتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جنہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے راہیں ہموار کیں، رکاوٹوں کو توڑا اور سماجی توقعات کی خلاف ڈٹی رہیں۔ ایسی ہی ایک دل فریب شخصیت ھیپاتیا کی ہے، جو ایک مشہور ریاضی دان، ماہر فلکیات اور فلسفی تھیں۔ تاریخ میں، ھیپاتیا کی طرح کچھ اور نام بھی ہیں جو قدیم مصر جیسے سماجوں میں، جہاں سخت پدرسری نظام رائج تھا، اپنی ذہانت اور تنقیدی سوچ کا جھنڈا لہراتے رہے۔

چوتھی صدی عیسوی میں مصر کے مرکزی شہر اسکندریہ میں مقیم ھیپاتیا کی میراث وقت سے آگے رہی ہے۔ اس کے تحریری ورثہ کو اس کی جلتی ہوئی لاش کے ساتھ جلا دیا گیا تھا لیکن ھیپاتیا کے چاہنے والوں نے اس کے سائنس اور فلسفے کے فکر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

 

ھیپاتیا کا ذکر پہلی بار یوسف زیدان کے ناول "عزازیل" میں پڑھا، زیدان اس ناول کے ذریعے پدرانہ نظام، خواتین کے لیے دقیانوسی تصورات اور ایسے معاشرتی تعمیرات کو بے نقاب کرتا ہے جو عرب دنیا بالخصوص مصر میں عورتوں کے لیے رائج تھے۔ اپنے کرداروں کے ذریعے اس دور کے معاشرے میں خواتین کے بحران کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ آزادی اور آزادی کے حصول میں خواتین (آکٹاویا، مارتھا اور ھیپاتیا) کی بہادری، روشن خیالی، اور خودمختاری کے طور پر پیش کرکے عورت کے تصور کو پیچیدہ بناتا ہے۔

ھیپاتیا کا سفر ایک ایسے دور کا ہے جب عورتوں کو گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رکھا جاتا تھا اور انہیں تعلیم تک کوئی رسائی حاصل نہ تھی۔ اس سب کے باوجود وہ اپنے والد کی رہنمائی میں تعلیم حاصل کرتی رہی جو خود ایک اسکالر تھے۔ والد کی حوصلہ افزائی اور ابتدائی تعلیم نے اس کی مستقبل کی کامیابیوں کی بنیاد رکھی اور کچھ ہی عرصے میں وہ والد کی جگہ پر آگئی۔ خواتین کی فکری نشوونما میں والدین کے تعاون کی طاقت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔

 

جیسے جیسے هیپاتیا کی دانش کی چرچا بڑھتی گئی، اسی طرح اس کی معاشرتی توقعات کے خلاف ہمت بڑھتی رہی۔ وہ اعتماد کے ساتھ ریاضی اور فلسفے کے میدان میں اتری اور مردانہ سماج میں داخل ہوئی، اس دوران اس نے ایسی اہم انکشافات کیا جس نے روایتی علم کو چیلنج کیا۔

ہیپاتیا کی زندگی اور کام نہ صرف اس کی فکری کامیابیوں کے لیے بلکہ مرد کے زیر تسلط معاشرے میں ایک ممتاز خاتون اسکالر کے طور پر بھی قابل ذکر ہے۔

اسکندریہ میں نیوپلاٹونک اسکول کی سربراہ بننے کے ساتھ ہی، وہ فلسفیانہ گفتگو، پدرانہ اصولوں کو چیلنج کرنے اور فکری آزادی کی وکالت کرنے والی ایک نمایاں آواز بن کر ابھریں۔

ھیپاتیا براہ راست کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھتی تھی لیکن اس کی رائے اور مشورے سیاست دانوں اور راہنما حاصل کیا کرتے تھے جو اکثر عوامی پالیسی کے معاملات پر ہوتی تھی۔ وہ اسکندریہ کے رومی گورنر اوریسٹس کو سیاسی اور سماجی مسائل پر مشورہ دینے کے لیے جانی جاتی تھیں۔ بشمول تعلیمی اداروں کی فروغ اور سائنسی تحقیق کے لیے تعاون اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوریسٹس نے ھیپاتیا کی تعلیمی سرگرمیوں میں بھی سہولت فراہم کی۔

تاہم ان کے تعلقات سیاسی کشیدگی سے بھی متاثر رہے۔ کچھ لوگ اوریسٹس کی حکمرانی کو ناگوار نظر سے دیکھتے تھے اور اسی دوران اسکندریہ کے سیاسی اور سماجی شعبوں میں ایک بحران پیدا ہوا، جس نے اوریسٹس اور هیپاتیا کے درمیان تناؤ کو بڑھا دیا۔ لوگوں کی اوریسٹس کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے، هیپاتیا نشانہ بن گئی، بالآخر ایک ہجوم کے ہاتھوں اس کی المناک موت واقع ہوئی۔

قدیم دور میں شعور کی ابھرنے والی آواز ھیپاتیا کی میراث آج بھی اسکالرز اور حقوق نسواں کو متاثر کر رہی ہے۔ جبر کے مقابلے میں فکری آزادی کی جدوجہد کرتے رہنا۔ باوجود سیاسی اور سماجی مشکلات کے، هیپاتیا کی میراث آج بھی علم کی دنیا میں ایک مظبوط ترین روشنی ہے۔ ان کی جدوجہدیں عورتوں کی تعلیمی حقوق اور فکری آزادی کے لیے ایک مثال قائم کرتی ہیں۔ ان کی شاندار زندگی اور علمی کارکردگی کو یاد رکھتے ہوئے، ہمیں عورتوں کی ترقی اور تعلیم کی فراہمی پر زور دینا چاہیے۔

 ھیپاتیا ھمیشہ سائنس اور فلسفہ کی تاریخ میں ہمت، عقل اور مضبوطی کی علامت بنی رہے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26