1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحرا کی ہندؤ لڑکی اور مذہب کی جبری تبدیلی

16 دسمبر 2023

سندھ کے مشہور شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سر (راگ) عمر ماروی کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں جبری مذہبی تبدیلی آج کی بات نہیں ہے، بلکہ کئی صدیوں سے یہ رسم ایسی ہی چلی آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4aEyp
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

کہانی میں ماروی ایک خوبصورت ہندو لڑکی ہوتی ہے جو تھرپارکر کے صحرا کے ایک علاقے ملیر کی رہائشی ہوتی ہے۔ ماروی کی خوبصورتی کا چرچا پورے ملیر میں ہوتا ہے پھر ایک دن عمر سومرو نام کا ایک بادشاہ اسے اپنے گاؤں بھلاوا سے اغوا کرکے امرکوٹ میں اپنے ایک محل میں لے جاکر قید کر لیتا ہے۔ یہ امرکوٹ وہی شہر ہے جسے ہم آج عمرکوٹ کے نام سے جانتے ہیں اس کا پرانا نام امرکوٹ تھا۔ 

جیمز ٹوڈ کے مطابق اس قصبے کی بنیاد گیارہویں صدی عیسوی میں پرمار خاندان کے امرسنگھ راجپوت نے رکھی تھی، اور عمر سومرو نے بعد ازاں اس کا نام تبدیل کردیا تھا۔ اس قصبے کی بنیاد میں عمر سومرو کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عمر سومرو اس کی بنیاد پڑنے کے بھی تقریباً دو صدیوں بعد کی کہانی ہے۔ 

عمر سومرو پر جبری تبدیلی کے حوالے سے دو الزامات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو ایک ہندو لڑکی پسند آئی جس سے اس نے زبردستی شادی کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا یہ کہ اس نے"امرکوٹ" جو در اصل امرسنگھ کے نام سے منسوب تھا، اسے اپنے نام سے منسوب کرکے عمرکوٹ کر دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تبدیلی کی رسمیں چھ سو سال پرانی ہیں اور ہم ابھی تک یہ رسمیں اتنے ہی جوش سے مناتے آرہے ہیں، خیر۔

پھر ہوا کچھ یوں کہ چھ سو سال پہلے اس صحرا کی ہندو لڑکی نے ہار نہیں مانی وہ اپنے حق پر کھڑی رہی اور اپنے لوگوں کو یاد کرتی رہی۔ شاہ عبداللطیف نے ماروی کی اپنے لوگوں کے لیے محبت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

میں وطن کے لیے تڑپتی ہوں اگر میں مر جاؤں تو میری لاش کو قید خانے میں مت چھوڑ دینا، اس پردیسی کو اس کے محبوب(وطن) سے دور نہ رکھنا، میرے میت پر صحرا کی ٹھنڈی مٹی پھیلا دینا۔ میری لاش کو اس کے آخری دور میں ملیر لے جانا۔

سندھ کے نامور مصنف جامی چانڈیو ماروی کے اس مزاحمت کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ماروی کی مزاحمت اور شخصی آزادی کو وطن اور لوگوں کی محبت سے کیوں جوڑنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ فیصلہ تو ماروی کا اپنا ذاتی تھا ہم اس کو اس طرح کیوں نہیں دیکھ سکتے کہ ماروی کو عمر سومرو پسند نہیں تھا اور وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ جامی کا کہنا ہے کہ شاھ لطیف نے اپنی شاعری میں ماروی کی شخصی آزادی کا ذکر کیا ہے۔

اپریل سے لیکر اب تک باقاعدگی سے مذہب جبری تبدیلی کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ پہلے بھی یہ کیسز موجود تھے مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے اب نظر بھی آنے لگے ہیں۔ ان کیسز میں سے ایک رپورٹ ضلع بینظیرآباد شہر قاضی احمد سے سوہانا شرما کی ہے۔ سوہانا چودہ سال کی ہندو بچی ہے۔ سوہانا کو ایک پرائیوٹ ٹیچر گھر میں ٹیوشن پڑھنے آتا تھا جس نے سوہانا کو اغوا کیا۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو جاری ہوئی کہ سوہانا شرما جو چودہ سال کی بچی ہے اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ایک مسلمان شخص سے شادی کر لی ہے۔

حسینا اوڈہ، سنگیتا، سندھیا کماری، شانتی منگوار، ریتا کولہی، پریا کماری اور جانے کون کون۔ پریا کماری تو سات سال کی بچی ہے، دو سال ہو گئے ہیں اس کے اغوا کو لیکن کوئی خیر خبر تک نہیں ہے۔ پولیس نے پریا کے کیس کو بالکل ایسے دبا دیا ہے جس طرح گڈی کولہی کا کیس دبا دیا تھا۔ وہ چودہ سال کی بچی دو سال ان ظالموں کی قید میں رہی اور دو سال کے بعد جیسے ہی اسے موقع ملا وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ کیا کوئی اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ دو سال اس پر کیسے گزرے ہوں گے اور اس دوران کتنی بار وہ زیادتی کا نشانہ بنی ہوگی۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے اتنی ہی تکلیف ہو رہی ہے جتنی آپ کو پڑھتے ہوئے ہورہی ہے۔ اس تکلیف سے گزرنا اور گزرانا بھی کوئی اچھا احساس نہیں ہے مگر خاموشی بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ سچائی ہے اور اس سچائی کو ہم جتنا جلدی قبول کریں گے اتنا جلدی اس کے حل کے لیے سنجیدہ منصوبوں پر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26